hamari dunia

روح کی حقیقت اور جنت میں اس کی تخلیق

زمین میں کئی نشانیں ہیں اور ان میں سے ایک نشانی ہے کہ انسان کا پیداوار زمین سے ہوتا ہے۔ اللہ نے انسان کو زمین سے ایک خاص طریقے سے پیدا کیا۔ میں آپ کو ایک بہت اہم بات بتانے جا رہا ہوں۔

زمین میں ایک مادہ ہے جس کو کاربن کہتے ہیں۔ زمین میں آج بھی 1.85 بلین بلین ٹن کاربن موجود ہے۔ اس کی صورت میں سیاہ اور جل گئی ہوئی مادہ ہوتی ہے، لیکن کاربن ایک ایسا عنصر ہے جو دوسرے کسی بھی عنصر سے زیادہ مرکبات بنا سکتا ہے۔

مثلاً، کاربن سے کوئل بنتی ہے جو ایک مرکب ہے، کاربن سے ہی ہیرے بنتے ہیں جو دوسرا مرکب ہے، اور کاربن سے ہی مارمر بنتی ہے جو بالکل مختلف تیسرا مرکب ہے۔ ہم کم از کم دس ملین مرکبات جانتے ہیں جو کاربن بنا سکتا ہے، لیکن اصل تعداد بہت زیادہ ہے۔ لیکن یہ مرکبات بے جان اور غیر زندہ ہیں، پھر میں آپ کو اس بات کیوں بتا رہا ہوں؟

اس وجہ سے کہ کاربن صرف بے جان مرکبات نہیں بناتا، بلکہ حقیقتاً ہم اب تک 6 لاکھ کاربن مرکبات کی معلومات رکھتے ہیں جو زندگی سے متعلق ہیں۔ یہ وجہ ہے کہ ہم اسے “کاربن پر مبنی زندگی” کہتے ہیں، یعنی ایک زندگی جو کاربن مرکبات سے بنتی ہے۔ اصل میں، کاربن اور زندگی اتنے قریبی تعلق رکھتے ہیں کہ ایک 123 تعریفات زندگی میں یہ بھی آتا ہے کہ “زندگی بس اس بات کا نام ہے کہ کاربن ایٹمز کو دوسرے ایٹمز کے ساتھ جوڑا ہوا ہے۔”

روح کی غذا

قرآن میں بہت سی جگہیں ہیں جہاں انسان کی مٹی سے پیدائش کا ذکر ہے، لیکن تین خاص مقامات پر یہ زکر ہے کہ انسان کی پیدائش سیاہ، جل گئی اور دھڈکنے والی زمین سے ہوئی تھی۔ اس سیاہ، جل گئی اور دھڈکنے والی زمین کی حقیقت کیا تھی؟

صرف اللہ ہی بہتر جانتا ہے، لیکن ایک مضبوط وجہ ہے جس کی بنا پر ہم خود کو “کاربن پر مبنی زندگی” کہتے ہیں۔ اس کاربن کی سیاہ، جل گئی حالت سے پیدا ہونے کے ساتھ ہی ہماری، آپ کی اور ہم سب کی کہانی شروع ہوتی ہے۔ ہم سب انسان ہیں، اور تمام وہ انسان جو اب تک گزر چکے ہیں، چاہے وہ بادشاہ ہوں

یا فقیر، شاعر ہوں یا جنگجو، اپنے دور کے ہیرو ہوں یا غدار، تمام وہ بڑے فلاسفے اور چاہے جسے سنا ہو، تمام انسان جو گزر چکے ہیں اور تمام جو آئیں گے، ہم سب ایک والدین سے نسل و نسبیں ہیں، جو “آدم” کہلایا کرتے تھے۔

اللہ نے پہلا انسان، ہمارے باپ آدم کو زمین کی گارے سے پیدا کیا، اور قرآن میں کم از کم نو بار اس بات

کی ذکر ہے کہ پہلا انسان، ہمارے باپ آدم، زمین کی مٹی سے بنا تھا۔ لیکن آدم کون تھا؟ ہم اس کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ اس کا روپ کیسا تھا؟

ترمذی کی ایک حدیث کے مطابق، آدم کی پیدائش کی شروعات یہاں سے ہوئی کہ پوری زمین کی کھال میں سے ایک مٹی کے ہاتھ میں لی گئی۔ اس کے بعد یہ مٹی کی کھال سے آدم کے نسل میں مختلف رنگوں کے لوگ پیدا ہوئے، اور ان کے مختلف طبائع تھے۔

پھر اسی مٹی کے راز کا نکولہ کارکردگی کے ساتھ آدم پیدا کیا گیا۔ سورہ صاف میں، اللہ نے آدم کے جسم کو اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا۔ اور حدیث میں ایک دفعہ وہ جسم بن گیا تھا، جب تک اللہ چاہے رہنے دیا گیا۔ اور اس کے بعد، جب شیطان ہمیشہ اس کے جسم کی حقیقت کو جاننے کے لئے آتا تھا۔ ابن عباس کے مطابق، آدم کے جسم کو چالیس دن کے لئے وہاں چھوڑا گیا تھا۔

روح کی طاقت

مسلمان حدیث میں، اللہ نے حکم دیا کہ جسم کو زندہ کر دیا جائے اور جمعہ کے دن کے درمیان، جسم کو روح دی گئی اور وہ زندہ ہو گیا۔ جب روح دی گئی تو آدم نے چھینک ماری اور پہلے کلام جو آدم نے کہا وہ یہ تھا: “الحمد لله”، اور اللہ نے اس کا جواب دیا:

“رحمت اللہ کرے”۔ جب روح جسم میں سما گئی، تو جسم مٹی سے گوشت اور خون کا بدل گیا۔ جب روح پیٹ کے ناف تک پہنچی، تو آدم خوش ہوا اور کھڑا ہونا چاہا لیکن اس سے قبل وہ نہیں کھڑا ہو سکا۔ اور یہ ہی ہے وہ عجلت جس کا ذکر سورہ اسراء میں ہے کہ بلا شبہ، انسان عجلت کرتا ہے۔ روح اس کے پاؤں تک نہیں پہنچی تھی کہ وہ چلنے کی کوشش کرنے لگا لیکن اس سے قبل وہ نہیں چل سکا۔اور اس نے دعا کی کہ اللہ! مجھے روح پھنچا دے قبلہ رات کے وقت تک۔

اب جب میں آدم اور اس دنیا کے بارے میں مزید بتاؤں، بہت اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ روح ہوتی کیا ہے؟ یا روح کیا ہوتی ہے؟ ہم سب نے بچپن سے سنا ہے ایک تجربہ جس کی وجہ سے ایک سائنسدان نے بیمار شخص پر ایک سائنسی تجربہ کیا تھا اور موت کے بعد اس کے جسم کا وزن 21 گرام کم ہو گیا تھا، اس لئے اس نے انسانی روح کا وزن 21 گرام قرار دیا تھا۔

یہ تجربہ واقعی 1901ء میں ڈنکن مک ڈوگل نے کیا تھا، اور 120 سال سے زیادہ پرانا ہے۔ اور یہ تجربہ حالیہ سائنسی میرٹس کے معیار کے مطابق نہیں تھا۔ پھر روح کیا ہوتی ہے؟ روح کے تصور کا تمام دنیا بھر میں مختلف مذہبی اور فلسفیانہ معاشرتیوں میں موجود ہے کہ روح کسی زندہ چیز کی حقیقت ہے۔ یونانیوں کو اسے “پسائک” یا “ہوا” کے معنی میں جانا جاتا تھا۔ لاطینی زبان میں، اس کو “انیما” کہتے ہیں۔

حقیقت میں، اس لفظ “انیمیشن” کا ریشہ ہے، جس کا مطلب ہے کمپیوٹر سافٹ وئیر میں کسی شخصیت کو حرکت دینا یا اسے جاندار بنانا۔ یہ اس طرح کی حرکت دیتا ہے جیسے اس کو روح دی جائے۔ مسیحی اور یہودیوں کا کہنا ہے کہ روح غیبی ہے جو زندگی کو شعور دیتی ہے اور ہر زندگی والے مخلوق کو روح ہوتی ہے، لیکن صرف انسانی روح کو انتہائی زندہ وار ہے۔ علاوہ ازیں، ہندو مت اور جین مت بھی یہ مانتے ہیں کہ سب سے چھوٹے جانور سے لے کر سب سے بڑے ویل میں تمام زندہ وار مخلوقات میں روح موجود ہے۔کہ

1037ء میں ایک مسلمان عالم ابن سینا جیل میں قید تھے اور انہوں نے وہاں ایک خیالی تجربہ کیا جسے “فلوٹنگ مین” کہا جاتا ہے۔ ابن سینا نے ایک آدمی کے خیالی تصور کیا جو کہ مدد کے بغیر خلا میں لٹکتا ہے۔ اس کے ارد گرد کچھ بھی نہیں ہے اور نہیں کوئی حصہ اس کے جسم کسی چیز سے چھوتا ہے۔ اس کے سب حسوں کو اس کے جسم کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ آدمی اپنے وجود کی حس کے احساس سے زندہ ہے اور یہ “وجود کے احساس” وہیں

کے بہت قریب ہے جہاں اس کا جسم نہیں ہے۔ ابن سینا کا کہنا ہے کہ اس کا روح اس جسم میں محبوس نہیں ہے، بلکہ اس کا روح انسانی جسم کے قریبی عالم میں ہے جہاں اس کا جسم کھلا ہوتا ہے۔

اس کے بعد، ابن سینا نے یہ جانا کہ اس کا روح کون ہے۔ اس کا روح ایک کاربن ایٹم سے بنا ہوتا ہے جس کا نام “کاربن پر مبنی زندگی” ہے۔

اگر آپ اسطرح کی مزید پوسٹ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہماری ویب سائٹ وزٹ کریں

کاربن ایٹم کا نظام کسی بھی دوسرے عنصر کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ اس کا ایک مخصوص نظام ہے، جس کے تحت کاربن کے چھے میں چھے پروٹان اور چار نیوٹران ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ایک چھے میں چھے الیکٹران ہوتے ہیں۔ کاربن ایٹم کے نظام کا نام ہے “تکسی ڈکسو”، اور اس کے نظام کے ساتھ جوڑے گئے کسی بھی عنصر کا نام “سکی بکسو” ہوتا ہے۔

مسلمان حکماء کے مطابق، روح کی حقیقت کی پیداوار یہ ہے کہ کاربن ایٹم کا نظام، جو کہ “کاربن پر مبنی زندگی” ہے، دوسرے کاربن ایٹم کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے، اور اس سے ایک “کاربن ڈوم” بن جاتا ہے۔

کاربن ڈوم کی مٹی کا نظام بہت عجیب ہوتا ہے، کیونکہ اس کا ہر ایٹم ایک چھے کے نظام کے ساتھ یہ ایٹم، جو کہ کاربن ڈوم کے نظام کا حصہ ہوتا ہے، ایک ویسے ہی نظام کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے، اور اس سے ایک نیا “کاربن ڈوم” بن جاتا ہے۔ ایک مسلمان حکماء کا کہنا ہے کہ ایک کاربن ڈوم کے نظام کے ساتھ ایک اور کاربن ڈوم کے نظام کا جڑا جا سکتا ہے، اور اس سے ایک نیا “کاربن ڈوم” بن جاتا ہے۔ اس طرح، کاربن ڈوم کے نظام کی تعداد انتہائی زیادہ ہوتی ہے۔

اور یہ کہنے کے لئے کہ کاربن ڈوم کے نظام کی تعداد بھی انتہائی زیادہ ہوتی ہے کہ ایک کاربن ڈوم کے نظام کے ساتھ ایک اور کاربن ڈوم کے نظام کا جڑا جا سکتا ہے، اور اس سے ایک نیا “کاربن ڈوم” بن جاتا ہے، یہ کہنا غلط ہو گا۔ لیکن ایک مسلمان حکماء کا کہنا ہے کہ کاربن ڈوم کے نظام کی تعداد بھی انتہائی زیادہ ہوتی ہے۔ اور یہ کہنے کے لئے کہ کاربن ڈوم کے نظام کے ساتھ ایک اور کاربن ڈوم کے نظام کا جڑا جا سکتا ہے، اور اس سے ایک نیا “کاربن ڈوم” بن جاتا ہے، یہ کہنا غلط ہو گا۔

اس کا مطلب ہے کہ روح کی حقیقت ہے کہ یہ کاربن ڈوم کے نظام کے ساتھ ایک جڑا جا سکتا ہے، اور اس سے ایک نیا “کاربن ڈوم” بن جاتا ہے۔ اور یہ کہنے کے لئے کہ کاربن ڈوم کے نظام کی تعداد بھی انتہائی زیادہ ہوتی ہے، اور اس سے ایک نیا “کاربن ڈوم” بن جاتا ہے، یہ کہنا غلط ہو گا۔ اس کا مطلب ہے کہ روح کی حقیقت کی پیداوار ہے کہ یہ کاربن ڈوم کے نظام کے ساتھ ایک جڑا جا سکتا ہے، اور اس سے ایک نیا “کاربن ڈوم” بن جاتا ہے۔

مزید اسلامی نقطہ نظر

مزید اسلامی نقطہ نظر سے، ایک مسلمان ہدایت گزار نے بھی روح کی حقیقت کے بارے میں اپنی رائے رکھی ہے۔ ان کے مطابق، روح کی حقیقت ہے کہ یہ اللہ کا ایک فرشتہ ہے جو انسان کے جسم کے اندر موجود ہوتا ہے اور انسان کو اللہ کی حمد و ثنا گوئی کرتا ہے۔

اور روح کے تصور کے مطابق، ایک مرتبہ روح کو انسان کے جسم کے اندر رہنے کے لئے موقوف کر دیا جاتا ہے، اور روح کا انسان کے جسم سے جدا ہو جانے کا مطلب ہے کہ وہ موت کر گیا ہے۔ روح کے انسان کے جسم سے جدا ہو جانے کے بعد، اس کا مقام انسان کے جسم کے باہر ہوتا ہے۔ اور روح کے باہر ہونے کے بعد، اس کا مقام اللہ کے پاس ہوتا ہے جہاں اسے جزاؤ اور عقوبت دی جاتی ہے۔

یہاں تک کہ روح کی حقیقت کے بارے میں کچھ دینی اور مذہبی نقطہ نظر پیش کیے گئے ہیں۔ روح کے بارے میں مزید معلومات کے لئے، اسلامی کتب اور ادیان کے مختلف فلسفیان کے علمائے کرام کے مصنفات کا مطالعہ کرنا بہتر ہوگا۔

Leave a Comment